Está en la página 1de 4

‫بسم اللہ الرح ٰمن الرحیم‬

‫السلم علیکم و رحمتہ اللہ وبارکتہ‬

‫ن مجید کی تلوت‬
‫بغیر وضو قرآ ِ‬
‫ن مجید کی تلوت کر سکت ے ہیں یا ن ہیں ؟‬ ‫سوال‪ :‬وضو ک ے بغیر قرآ ِ‬
‫جبکہ ایک حدیث میں آتا ہے )ل یمس القرآن ال طاھرا( ”قرآن کو طاہر کے‬
‫سوا کوئی نہ چھوئے “ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟‬

‫ن مجید کی تلوت کر سکتا ہے کیونکہ کوئی ایسی صریح‬ ‫جواب‪ :‬بے وضو قرآ ِ‬
‫اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے جس میں بے وضو آدمی کو قرآن مجید کی‬
‫تلوت سے روکا گیا ہو اور قرآن مجید کی تلوت کا حکم خود قرآن مجید میں‬
‫ن مجید سے میسر ہو ‪ ،‬پڑھو“۔‬
‫ہے۔ اللہ تعال ٰی فرماتا ہے‪” :‬جو قرآ ِ‬

‫اس میں یہ نہیں کہ وضو کے بغیر نہ پڑھو۔ جو حدیث آپ نے پیش کی ہے یہ‬


‫حدیث صحیح ہے کہ طاہر کے سوا قرآن مجید کو کوئی نہ چھوئے ۔اس کی‬
‫تفسیر بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و‬
‫سلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت میں آئے جن میں ابو ہریرہ رضی‬
‫اللہ عنہ بھی تھے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس سے نکل گئے۔ جب مجلس‬
‫میں واپس آئے تو سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا )سبحان اللہ ان المؤ من ل ینجس( کہ مومن نجس‬
‫نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ) ال طاھرا( سے‬
‫مراد غیر مومن ہے یعنی کافر قرآن مجید کو نہ چھوئے‪ ،‬مومن چھو سکتا ہے‬
‫خواہ وہ با وضو ہو یا بے وضو۔‬

‫صحیح بخاری شریف میں ہی ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان‬
‫کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے‬
‫ہوئے تھے‪ ،‬جب ُاٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل‬
‫عمران کی آخری دس آیات کی تلوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف‬
‫بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔ )صحیح بخاری مع الفتح ‪/١۱‬‬
‫‪(٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤‬۔‬

‫اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫تلوت کی اور وضو بعد میں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب‬
‫قائم کیا ہے‪ :‬بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلوت کرنا۔‬
‫یہ بات تو مسلم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے وضو بھی ہوتے‬
‫تھے اور مسلم شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ “نبی کریم صلی اللہ علیہ و‬
‫آلہ وسلم ہر وقت اللہ تعا ٰلی کا ذکر کیا کرتے تھے“۔‬

‫اور اللہ کے ذکر میں قرآن مجید بھی داخل ہے۔ ان دلئل سے معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫قرآن مجید کی تلوت کیلئے با وضو ہونا لزمی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی‬
‫نہ سمجھ لیا جائے کہ آدمی اپنی عادت ہی بنا لے کہ میں نے تلوت ہی بے وضو‬
‫ہونے کی حالت میں کرنی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ با وضو ہو کر کرے۔‬
‫‪http://www.difaehadees.com/Masail/2/4.htm‬‬

‫بچپن میں ہمیں ایک بات کی نصیحت کی جاتی تھی کہ قرآن مجید کو بغیر‬
‫وضو ہاتھ نہ لگانا اس سے بہت گناہ ہوتا ہے مگر جب میں نے قدرے بڑے ہوکر‬
‫اس بات کی تحقیق کی کہ کیا واقعی بغیر وضو قرآن مجید کو ہاتھ لگانا منع‬
‫ہے تو میں حیران رہ گیا کہ ایسا حکم قرآن و صحیح حدیث میں کہیں بھی نہیں‬
‫ہے‪::‬یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے ایسا حکم نہ مل ہو اگر کسی بھائی کے علم میں‬
‫ہوتو وہ راہنمائی فرمائے ‪..‬جزاک اللہ‪::‬آج میں آپ کے سامنے اس بات کی‬
‫تحقیق پیش کرونگا کہ کیا قرآن مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا منع ہے کہ نہیں؟؟؟‬

‫اس پر جو سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے وہ قرآن کی یہ آیت ہے جس میں‬


‫اللہ تعال ٰی کا ارشاد ہے کہ‬
‫بیشک یہ قرآن ہے بڑا ہی عزت )و عظمت( وال‪ ،‬جو ایک محفوظ کتاب میں‬
‫درج ہے‪ ،‬جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ سورۃ الواقعہ‪۷۷:‬۔‪۷۸‬۔‪۷۹‬‬

‫تفسیر تیسیر القرآن‬


‫مطہرون سے مراد کون؟ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکیزہ‬
‫لوگوں سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت‬
‫ہے اور وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے ل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫وسلم تک پہنچاتے ہیں۔ کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جو‬
‫اسے ل کر کسی کاہن کے دل پر نازل کر دے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے‬
‫کہ قرآن کے مضامین و مطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے‬
‫جن کے خیالت پاکیزہ ہوں۔ کفر و شرک کے تعصبات سے پاک ہوں۔ عقل‬
‫صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالت ہی گندے ہوں۔ قرآن‬
‫کے بلند پایہ مضامین و مطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا‬
‫مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا‬
‫چاہئے۔ مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہئے۔ اسی آیت سے بعض‬
‫علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بے وضو لوگوں کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا‬
‫چاہیے۔ لیکن راجح تر بات یہی ہے کہ بے وضو بھی قرآن کو چھو سکتا اور اس‬
‫سے تلوت کرسکتا ہے۔ صرف جنبی اور حیض و نفاس والی عورت قرآن کو‬
‫چھو نہیں سکتے۔ جب تک پاک نہ ہوں۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت زبانی‬
‫قرآن پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھا بھی سکتی ہے۔‬

‫اب اس آیت کے کئی مطالب سامنے آئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ کوئی انسان‬
‫اس کتاب کو ہاتھ نہ لگائے مگر جو پاک ہو‪ ،‬اب دیکھنا یہ ہے کہ بغیر وضو انسان‬
‫کیا پلید‪ ،‬ناپاک ہوجاتا ہے؟ اگر تو ایسا ہی ہے پھر تو وضو لزمی ہوا اور اگر‬
‫ایسا نہیں ہے تو وضو کی شرط لگانا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ دین میں اضافہ کے‬
‫ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے مثل ً دیکھنے میں اکثر یہ آیا‬
‫ہے کہ لوگ اکثر اس وجہ سے قرآن کی تلوت کرنے سے ُرک جاتے ہیں کہ ہم بے‬
‫وضو ہیں اور اس طرح وہ قرآن سے دور ہوتے جا رہے ہیں بلکہ قرآن سے دور‬
‫ہوچکے ہیں‪ ،‬میرے ساتھ خود کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہم کسی مسئلے پر بات‬
‫چیت کر رہے ہوتے تو قرآن مجید کے حوالے کے لیے قرآن کی ضرورت پیش‬
‫آئی اور ہم صرف اسی وجہ سے قرآن کو ہاتھ میں نہیں پکر رہے تھے کہ ہمارا‬
‫وضو نہیں تھا اور وہ موقعہ محل بھی ایسا تھا کہ فورا ً وضو بھی نہیں کیا‬
‫جاسکتا تھا‪ ،‬اب اس مسئلے میں دین میں اضافہ کس مقصد کے لیے کیا گیا تھا‬
‫اس کا مجھے علم نہیں مگر اس کی وجہ سے لوگ قرآن سے ضرور دور ہو‬
‫چکے ہیں‪ ،‬وضو بعض لوگوں پر اتنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم‬
‫نماز نہیں پڑھتے کہ وضو کرنا پڑتا ہے ۔ اصل میں ناپاک وہ انسان ہوتا ہے جو‬
‫مرد یا عورت جنبی ہو یا عورت حیض و نفاس سے ہو‪ .‬بے وضو کو بھی ناپاک‬
‫سمجھنا کسی بھی طور ٹھیک نہیں ہے۔‬

‫پھر یہ کہ سورہ واقعہ مکی ہے جبکہ وضو کا حکم مدینہ میں آیا تھا ۔ لہٰذا اس‬
‫آیت کو وضو کے ساتھ شرط نہیں کیا جا سکتا تاہم ہمیں صحیح احادیث کی‬
‫کتاب میں سے بھی کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی جس میں بغیر وضو قران‬
‫پڑھنے کی ممانعت ہو۔‬

‫اب ایک عمر رضی اللہ عنہ کا اثر پیش کرتا ہوں۔‬
‫ْ‬ ‫ب َ‬ ‫خ ّ‬ ‫ن ال ْ َ‬ ‫ع َن محمد بن سيري َ‬
‫ن‬‫ن القُْرآ َ‬ ‫قَرُئو َ‬ ‫م يَ ْ‬ ‫ن ِفي قَوْم ٍ وَهُ ْ‬ ‫کا َ‬ ‫طا ِ‬ ‫مَر ب ْ َ‬ ‫ن عُ َ‬‫نأ ّ‬ ‫ْ ُ َ ّ ِ ْ ِ ِ ِ َ‬
‫قرأ ُ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ن فَ َ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬
‫ن أت َ ْ َ‬ ‫مؤ ْ ِ‬
‫مِني َ‬ ‫ميَر ال ُ‬ ‫ل َيا أ ِ‬‫ج ٌ‬ ‫ه َر ُ‬‫لل ُ‬ ‫قا َ‬ ‫قْرآ َ‬ ‫قَرأ ال ُ‬ ‫جعَ وَهُوَ ي َ ْ‬ ‫جت ِهِ ث ُ ّ‬
‫م َر َ‬ ‫حا َ‬ ‫ب لِ َ‬‫فَذ َهَ َ‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫ة‬
‫م ُ‬‫سي ْل ِ َ‬
‫م َ‬ ‫ذا أ ُ‬‫ن أفَْتاکَ ب ِهَ َ‬ ‫م ْ‬‫مُر َ‬ ‫ه عُ َ‬ ‫ل لَ ُ‬ ‫قا َ‬‫ئ فَ َ‬ ‫ضو ٍ‬‫ت ع ََلی وُ ُ‬ ‫س َ‬ ‫ن وَل َ ْ‬ ‫ال ْ ُ‬
‫قْرآ َ‬
‫محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں‬
‫بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے‬
‫لگے ایک شخص نے کہا آپ کلم اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی‬
‫اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟‬
‫موطاامام مالک‪:‬جلد نمبر ‪:1‬باب‪:‬کل م اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت‬

‫حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا حکم تو قرآن و‬
‫حدیث میں کہیں نہیں ہے کہیں مسیلمہ کذاب نے تو ایسا حکم نہیں دے دیا؟؟‬
‫اور آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ مسیلمہ کذاب وہی شخص ہے جس نے نبی‬
‫کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا جھوٹا دعو ٰی کیا تھا۔‬

‫اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو قرآن و سّنت کی سمجھ اور ان پر عمل کی‬


‫توفیق عطا فرمائے‪ .‬آمین۔‬
‫‪http://www.siratulhuda.com/forums/archive/index.php/t-1434.html‬‬

También podría gustarte